کپتان کا ایک اوراقدام - جہیزکی نُمائش اورطلب پرپابندی عائد - نکاح فارم میں تبدیلی




پاکستانی معاشرے میں ویسے تو جہیز بچیوں کی خوشیوں کے لیے ہر والدین ان کو شادی کے موقع پر دیتے ہیں ، تاکہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات احسن طریقے سے پوری کرسکیں.لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہیز دینے کی رسم اب ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ بنتی جارہی ہے. خاص طور پر ان والدین کے لیے جو کہ سفید پوش طبقے  سے تعلق رکھتے ہیں.

کیونکہ پاکستانی معاشرے میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے من چاہے جہیز کی مانگ کی جاتی ہے. اور انہی منفی رویوں کی بدولت پاکستان میں بہت سی بچیوں کی شادیاں یا تو نہیں ہو پاتی یا انکی شادی کے انتظار میں جہیز جمع کرنے کے لئے عمر گزرتی جاتی ہے یا پھر کچھ بیٹیاں پڑھنے لکھنے کے بعد نوکری کرکے پیسے کماتی ہیں اور اپناجہیزبناتی ہیں تاکہ کسی اچھی جگہ ان کی شادی ہو سکے. 


ایسے ہی منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیےکچھ عرصہ قبل وفاقی حکومت نے ایک قدم اٹھایا ہےجس کے تحت تحائف ممانعت ایکٹ 1976 میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔جہیز اور دلہن کے تحائف ممانعت ایکٹ ترمیمی بل 2020 کے تحت وزارت مذہبی امور نے جہیز کی طلب اور نمائش پر پابندی کی سفارش کر دی ۔اس ترمیمی بل میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ دلہن کو مختلف تحائف اور جہیز کی مد میں دیے جانے والے تحفوں کی قیمت 4 تو لے سونے سے زیادہ نہیں ہوگی اس مقصد کے لئے ایکٹ کے سیکشن میں ترمیم کی جائے گی

 ۔سفارش کردہ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا کہ شادی کے کل اخراجات چار تولہ سونے کی قیمت سے زیادہ نہیں ہوں گے اور ان اخراجات میں شادی کے فنکشن کے اخراجات بھی شامل ہوں گے ۔

اس ضمن میں وزارت مذہبی امور کی طرف سے سمری کابینہ کو بھی ارسال کی جا چکی ہے ۔تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی پر آنے والے مہمانوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف کی قیمت بھی ہزار روپےفی کس سے زیادہ نہ رکھی جائے ۔اس ایکٹ میں ایک سیکشن یہ بھی شامل کیا جائے گا کہ طلاق کی صورت میں دلہن کو جہیز کی اشیاء اور تحائف یا ان کے برابر رقم ادا کی جائے فی الحال ترمیمی بل کا اطلاق ابتدائی طور پر  اسلام آباد کی حد تک ہوگا۔بعد ازاں اس کا دائرہ کار دوسرے صوبوں تک بھی بڑھا دیا جائے گا۔اس ایکٹ کی خلاف ورزی قابل سزا تصور کی جائے گی۔ 

ایسے بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کے تناظر میں حکومت کی جانب سے کیا گیا یہ اقدامقابل ستائش ہے ۔تاہم اس کے بھرپور ثمرات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد، تمام طبقات اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں اور جہیز مانگنے کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں اور شادی پر کیے جانے والے اخراجات کو کم سے کم رکھیں تاکہ ایک متوازن معاشرہ فروغ پا سکے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حکومت گیارہ ضلعوں میں سافٹ ویئر پارکس قائم کرے گی

اب پاکستان میں بھی بجلی سستی ہو گی-حکومت نے عوام کوریلیف دینےکےلئےزبردست قدم اٹھالیا

شوگر کیا ہے؟ اور اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے- آپ بھی جانیئے۔